لوک سبھا میں روہنگیا مسلمانوں کے ہندوستان میں پناہ لینے کے معاملے پرحزب
اقتدار اور حزب اختلاف آج آمنے سامنے آ گئے۔ حزب اقتدار نے جہاں انہیں
جرائم اور دہشت گردی میں ملوث بنگلہ دیشی مسلمان بتاتے ہوئے ملک سے باہر
نکالنے کا مطالبہ کیا وہیں اپوزیشن نے میانمار میں تشدد کا شکار ہوکر
ہندوستانی پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے تقریبا سوا لاکھ روہنگیا مسلمانوں
کی قابل رحم حالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں پناہ گزین قانون بنایا
جانا چاہیے۔ وقفہ صفر میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نشی کانت دوبے
نے یہ معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ملک پہلے ہی بنگلہ دیشی دراندازوں کے
مسائل کا شکار ہے۔ وہیں سے اب روہنگیا مسلمان آ رہے ہیں۔ وہ بھی بنگلہ دیش
سے میانمار گئے اور وہاں سے اب ہندوستان آ رہے ہیں۔ یہ لوگ جعلی نوٹوں کے
کاروبار، انتہا پسندی، نکسل ازم وغیرہ میں ملوث ہیں اور ان کے روکنے کی
کوشش نہ ہونے سے وہ آدھار کارڈ حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں۔ کئی
علاقوں میں تو آبادی کا تناسب بھی بدل گیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ
حکومت ایک کمیشن بنا کر ان کی جانچ کرائے
اور جو بھی ہندوستان کے نہیں ہیں،
انہیں باہر کردیا جائے۔
اس کے بعد کانگریس کے رکن اور سابق وزیر مملکت ششی تھرور نے اسی پر خطاب
کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی روایت اور تاریخ بہت ہی مثالی رہی ہے۔ ہزاروں
برسوں سے ہم نے کئی کمیونٹیز کے تمام لوگوں کو پناہ دی ہے۔ انہوں نے کہا
کہ ایک پروپیگنڈہ مہم چلائی جا رہی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی تعداد تقریبا
سوا لاکھ ہے جو انتہائی قابل رحم حالت میں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بے
بنیاد الزام لگانے کی بجائے ملک میں ایک پناہ گزین قانون بنائے جانے کی
ضرورت ہے تاکہ افواہوں اور پریس کی رپورٹ کی بنیاد پر پروپیگنڈہ مہم نہیں
چلائی جا سکے۔ انہوں نے حکومت سے اس بارے میں اقدامات کرنے کی درخواست کی۔
مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے اے سمپت نے وزیر خارجہ سشما سوراج کے اس سلسلے میں
پہلے دیئے گئے ایک بیان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے دس لاکھ ڈالر کی
رقم ان کی بازآبادکاری کے لئے دیئے ہیں۔ روہنگیا پناہ گزینوں میں صرف
مسلمان نہیں بلکہ ہندو اور عیسائی بھی شامل ہیں۔ اس مسئلے کا میانمار حکومت
کے ساتھ دو طرفہ طریقے سے حل كیا جانا چاہیے۔